Sponsored Links

Character of Nawaz Sharif - Javed Choudhary


Extract from a Column by Javed Choudhry in EXpress News Paper on 27-May-2013

اس دوران میاں نواز شریف کی برداشت جواب دے گئی‘ وہ مہدی صاحب کی طرف مڑے اور انھوں نے غصے سے کہا ’’ مہدی صاحب آپ کو میرے احسانات یاد نہیں آئے‘ میں نے آپ کو کہاں سے اٹھایا اور کہاں پہنچا دیا‘‘ میاں صاحب اس کے بعد اپنے وہ تمام احسانات دہرانے لگے جو انھوں نے مہدی صاحب پر کیے تھے‘ مہدی صاحب چپ چاپ سنتے رہے
وزیراعظم جب تھک گئے تو مہدی صاحب نے ان کی طرف دیکھا اور میاں صاحب سے مخاطب ہوئے ’’ میاں صاحب یاد رکھیں مجھ پر یہ تمام مہربانیاں میرے اللہ نے کی ہیں‘ آپ صرف وسیلہ تھے‘ میں وسیلا بننے پر آپ کا صرف شکریہ ادا کر سکتا ہوں مگر میرا شکر صرف میرے اللہ کی امانت ہے‘‘ یہ سن کر میاں نواز شریف نے چند لمحوں کے لیے منہ پھیر لیا ‘ وہ کھڑکی سے باہر دیکھنے لگے‘ پھر انھوں نے اچانک میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور حکم دیا’’ گاڑی روک دو ‘‘ ہم لوگ اس وقت فیض آباد کے قریب پہنچ چکے تھے‘ فیض آباد کا پل ابھی نہیں بنا تھا اور راول ڈیم چوک سے لے کر فیض آباد تک ویرانہ ہوتا تھا‘ میں نے گھبرا کر سیکریٹری صاحب کی طرف دیکھا‘ وہ بھی انتہائی پریشان تھے‘ ہم پروٹوکول کے ضابطوں کے مطابق وزیراعظم کی گاڑی راستے میں نہیں روک سکتے تھے چنانچہ میں گاڑی چلاتا رہا‘ میاں صاحب نے مجھے دوسری بار سخت لہجے میں حکم دیا’’ گاڑی روکو‘‘ میں نے سعید مہدی کی طرف دیکھا‘ ان کے چہرے پر سکون اور اعتماد تھا‘ وہ ذہنی طور پر ہر قسم کے حالات کا سامنا کرنے کے لیے تیار تھے‘ میں نے گاڑی روک دی‘ ہمارے رکتے ہی پروٹوکول اور سیکیورٹی کی تمام گاڑیاں رک گئیں‘ کمانڈوز نے نیچے کود کر پوزیشن سنبھال لی
میاں صاحب گاڑی سے اترے اور سڑک سے نیچے اتر گئے‘ سامنے جھاڑیاں تھیں‘ وہ جھاڑیوں میں چلے گئے‘ ہم خوف اور پریشانی کے عالم میں انھیں دیکھنے لگے‘ وہ جھاڑیوں میں کیکر کے ایک درخت کے قریب رکے‘ کانوں تک ہاتھ اٹھائے اور نماز شروع کر دی‘ وہ ننگی زمین پر رکوع بھی کر رہے تھے اور سجدے بھی اور ہم لوگ انھیں بلندی سے دیکھ رہے تھے‘ ہم میں سے کسی میں نیچے اترنے کی ہمت نہیں تھی‘ وزیراعظم نے دو نفل پڑھے‘ دعا کی اور واپس آ گئے‘ ان کے کپڑے اور جوتے گندے ہو چکے تھے‘ ہمارا قافلہ چل پڑا‘ گاڑی میں مکمل خاموشی تھی‘ سیکریٹری صاحب نے ذرا سی ہمت کی اور گیلے ٹشوز کا ڈبہ ان کی طرف بڑھا دیا‘ میاں صاحب نے ایک ٹشو اٹھایا اور سعید مہدی سے مخاطب ہوئے ’’ مہدی صاحب میں معافی چاہتا ہوں‘ میں غصے میں بڑا بول بول گیا تھا‘ آپ کی بات درست تھی ہم انسان کسی کو کچھ نہیں دے سکتے‘ ہم صرف وسیلہ بنتے ہیں‘ مجھے محسوس ہوا میں تکبر میں آ گیا ہوں چنانچہ میں نے فوراً توبہ کے دو نفل ادا کیے‘ آپ بھی مجھے معاف کر دیں‘‘۔ یہ سن کر سعید مہدی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے‘ انھوں نے ٹشو اٹھا کر آنکھوں پر رکھ لیا‘ میاں صاحب ائیر پورٹ   پر اترے‘ جہاز پر بیٹھے اور لاہور روانہ ہو گئے 
Detail: http://www.express.pk/story/131911/

Author

Written by Admin

Your Comments are always welcome! Remember, We don't like SPAM.

0 comments: